شخصیت
بٹھا کے کاندھے پہ لائی تھی رات اسے
شفق نے ہنس کے کیا تھا استقبال
ہوا نے راگنی چھیڑی فضا میں گیت گھلے
سجا کے پتوں کی تھالی میں اوس کے جگنو
اتاری تھی پیڑوں نے آرتی اس کی
مگر بلندی پہ آ کر بدل گئے تیور
شکن غرور کی پیشانی پر جھلکنے لگی
نگاہ قہر و حقارت سے دیکھتی سب کو
مزاج گرم ہوا اور گرم اور بھی گرم
جنون سر میں فقط میں کا ہی سمایا رہا
اور اس گھمنڈ میں وہ بھول بیٹھا ہے
کہ اس کے پیچھے ہی ہے شام کا سایا
زمیں بلندی کی ہوتی نہیں ہموار کبھی
یہاں پہ شخص نہیں شخصیت ٹھہرتی ہے