تماشا

حویلی کے بڑے دروازے پر آویزاں
دونوں کیمرے ہر روز
باہر کے مناظر دیکھتے رہتے ہیں حیرت سے
مگر اندر کی دنیا بھی
ہے کچھ باہر کے جیسی ہی
یہاں کے بسنے والوں میں
روابط بھی ہیں مستحکم
عداوت بھی مسلسل ہے
مکیں بالائی منزل کا
ہمیشہ دوسری منزل کے باشندے پہ
پہرہ تنگ رکھتا ہے
کسی بھی طور من مانی
نہ کرنے پائے یہ ہرگز
بنا اس کی اجازت کے
نہیں لے فیصلہ کوئی
مگر دوجے کو بھی ضد ہے
کرے گا خود سری یوں ہی
فضا اس کی
گھٹن آلود بھی ہے پر سکوں بھی
گھٹا اور دھوپ دونوں
آگے پیچھے چلتی رہتی ہیں
کوئی کنکر جو اس کی جھیل میں گر جائے
پہروں مضطرب رہتی ہیں لہریں
اٹھا کرتے ہیں جزر و مد بھی رہ رہ کر
ذرا جو گرم ہو موسم
یہاں پر بہنے والے سرخ پانی کا
بدلنے لگتا ہے تیور
کبھی بس بھاپ بن کر
جذب ہو جاتا ہے اندر ہی
کبھی طوفان کی صورت
سونامی کی طرح سب کچھ
مٹا دیتا ہے اک پل میں
درون خانہ سجتی رہتی ہے محفل
تماشا روز ہوتا ہے