سید احمد شمیم کی غزل

    وہ مرا ہوگا یہ سوچا ہی نہیں

    وہ مرا ہوگا یہ سوچا ہی نہیں خواب ایسا کوئی دیکھا ہی نہیں یوں تو ہر حادثہ بھولا لیکن اس کا ملنا کبھی بھولا ہی نہیں میری راتوں کے سیہ آنگن میں چاند کوئی کبھی چمکا ہی نہیں یہ تعلق بھی رہے یا نہ رہے دل قلندر کا ٹھکانا ہی نہیں

    مزید پڑھیے

    شدت جذب میں جب عالم ہو بولتا ہے

    شدت جذب میں جب عالم ہو بولتا ہے مئے گل رنگ چھلکتی ہے سبو بولتا ہے دل کا آئینہ کھلا ہو تو سکوت شب میں میں بیاں کرتا ہوں خود کو کبھی تو بولتا ہے جگمگا اٹھتا ہے دم بھر میں چمن زار خیال چاند پہلو میں اتر کر لب جو بولتا ہے موسم برف میں ہر رات گزرتی ہے مگر گاہے گاہے سہی خوابیدہ لہو ...

    مزید پڑھیے

    آج کا دن بھی گزر جائے گا

    آج کا دن بھی گزر جائے گا قافلہ لوٹ کے گھر جائے گا راہ کٹتی ہی نہیں ہے اپنی ساتھ کب تک یہ سفر جائے گا زخم تازہ ہے تو دل دکھتا ہے وقت کے ساتھ یہ بھر جائے گا آزما گردش دوراں تو بھی آئینہ اور سنور جائے گا بھاگتے دوڑتے لمحوں کا سفر کب اچانک ہی ٹھہر جائے گا صبح کھلتا ہوا ہر پھول ...

    مزید پڑھیے

    وہ اور کچھ نہیں اک طرز گفتگو کی تھی

    وہ اور کچھ نہیں اک طرز گفتگو کی تھی کہا یہ کس نے کبھی تیری آرزو کی تھی کبھی بھی اپنی طبیعت نہ جنگجو کی تھی وہاں انا کی نہیں بات آبرو کی تھی جو زخم تھا تو ذرا خون ہی ٹپکتا تھا جلن تمام ترے سوزن رفو کی تھی ترا جمال تھا یا تھا طلسم ہوش ربا للک عجیب سے مجھ میں بھی جستجو کی ...

    مزید پڑھیے

    کل مجھے دیکھ کے تھا آئنہ چونکا جیسے

    کل مجھے دیکھ کے تھا آئنہ چونکا جیسے میرے چہرے میں چھپا ہو کوئی چہرہ جیسے ہم کلامی بھی مٹاتی نہیں دوری کی خلیج بیچ سے ٹوٹ گیا درد کا رشتہ جیسے لہر ہلکی سی فضاؤں میں جو ابھری ڈوبی درد کی شاخ سے ٹوٹا کوئی پتا جیسے کتنے بکھرے ہوئے خوابوں کا کھنڈر لگتا ہے وقت نے دے دیا اس شخص کو ...

    مزید پڑھیے

    سامنے ہو مے کدہ اور مے سے بیگانہ رہے

    سامنے ہو مے کدہ اور مے سے بیگانہ رہے یہ فریب ہوش‌ مندی ہوش مندانہ رہے وہ گدا ہو کر بھی دنیا میں امیرانہ رہے ملتفت جس پر تری چشم کریمانہ رہے وسعت صحرا بھی جب ہو تنگ اس کے سامنے شہر کا پابند کیسے کوئی دیوانہ رہے داستان شوق ہے اپنے لہو سے لالہ رنگ ہر زمانے میں ہمیں عنوان افسانہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے کون ہے کیا ہے کہاں سے آیا ہے

    نہ جانے کون ہے کیا ہے کہاں سے آیا ہے وہ میرا عین ہے یا خواب ہے یا دھوکا ہے نہ دیکھ وقت یوں مجھ کو یہ تیرا چہرہ ہے جو شخص مجھ میں چھپا ہے وہ کتنا سادہ ہے ہوا کے گھنگھرو ہیں ساکت تھکی تھکی ہے شام اداسیوں کا ہر اک سمت جال پھیلا ہے فضا میں اڑتے پرندوں نے پر سمیٹ لئے نزول شام ہے اور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3