کل مجھے دیکھ کے تھا آئنہ چونکا جیسے
کل مجھے دیکھ کے تھا آئنہ چونکا جیسے
میرے چہرے میں چھپا ہو کوئی چہرہ جیسے
ہم کلامی بھی مٹاتی نہیں دوری کی خلیج
بیچ سے ٹوٹ گیا درد کا رشتہ جیسے
لہر ہلکی سی فضاؤں میں جو ابھری ڈوبی
درد کی شاخ سے ٹوٹا کوئی پتا جیسے
کتنے بکھرے ہوئے خوابوں کا کھنڈر لگتا ہے
وقت نے دے دیا اس شخص کو دھوکا جیسے
دل کو چھوتی ہوئی یوں درد کی لہریں گزریں
پھر کوئی جھیل میں لگتا ہے کہ ڈوبا جیسے
یوں ہر اک فرد تحیر کی ہے تصویر شمیمؔ
شہر میں راستہ بھولا ہوا بچہ جیسے