نہ جانے کون ہے کیا ہے کہاں سے آیا ہے

نہ جانے کون ہے کیا ہے کہاں سے آیا ہے
وہ میرا عین ہے یا خواب ہے یا دھوکا ہے


نہ دیکھ وقت یوں مجھ کو یہ تیرا چہرہ ہے
جو شخص مجھ میں چھپا ہے وہ کتنا سادہ ہے


ہوا کے گھنگھرو ہیں ساکت تھکی تھکی ہے شام
اداسیوں کا ہر اک سمت جال پھیلا ہے


فضا میں اڑتے پرندوں نے پر سمیٹ لئے
نزول شام ہے اور راستہ اکیلا ہے


تمام کھیل ہوا دن ڈھلا چلو اب گھر
نہ جانے مجھ میں اترتا یہ درد کیسا ہے


سیاہ رات کا پنچھی ہے پنکھ پھیلائے
مگر دلوں میں بہت دور تک اجالا ہے


اسے بھی ساتھ نہ موج بلا تو لے جانا
یہیں پہ میرے سکوں کا جزیرہ ڈوبا ہے


گزشتہ زخموں کے ٹانکے مسکتے جاتے ہیں
کسی نے دور بہت دور سے پکارا ہے


شمیمؔ بیتی رتوں کی ہے چاندنی پھیلی
فصیل شب سے خیالوں کا چاند ابھرا ہے