سہیل آزاد کے تمام مواد

20 غزل (Ghazal)

    بے کراں وسعتوں میں تنہا ہوں

    بے کراں وسعتوں میں تنہا ہوں خاک پر صورتیں بناتا ہوں بزم میں سوئے اتفاق کہ میں اس کے جانے کے بعد آتا ہوں پیاس ہے میری زندگی کا پتا میں بھی اے رہ گزار دریا ہوں اور کچھ پل مجھے گوارہ کر ڈوبتی شام کا تماشہ ہوں میرے سورج تجھے خبر بھی نہیں میں تری آس میں ہی زندہ ہوں ایک دفتر ہے میری ...

    مزید پڑھیے

    اک سکوت بے کراں شعلہ بیانی سے الگ

    اک سکوت بے کراں شعلہ بیانی سے الگ ایک دنیا ہے مرے شہر معانی سے الگ موج خود ساکت کھڑی تھی یا کہ تھا یہ دام آب کیا تھا وہ ٹھہراؤ سا پیہم روانی سے الگ وہ بیاں آہنگ جس کا دل کو چھلنی کر گیا گرم گفتاری سے ہٹ کر بے زبانی سے الگ ساری خوشیاں جھوٹ ہیں ہر مسکراہٹ ہے فریب آؤ اک دنیا بسائیں ...

    مزید پڑھیے

    میں کہاں کاروان شوق کہاں

    میں کہاں کاروان شوق کہاں اب وہ تب سا جہان شوق کہاں کچھ تو دل بھی ہے ذوق سے خالی اور کچھ وہ زبان شوق کہاں کب رہی ہے متاع دل بھی ساتھ اور سوداگران شوق کہاں عشق بھی بے بسی سا لگتا ہے دل بھی اب ہم زبان شوق کہاں بے حسی پر ہے زندگی آزادؔ یار وہ نکتہ دان شوق کہاں

    مزید پڑھیے

    کیا ہوا کیوں یہ سہانی بستیاں بیمار ہیں

    کیا ہوا کیوں یہ سہانی بستیاں بیمار ہیں کیوں یہ دل کے شہر یہ آبادیاں بیمار ہیں ایک مدت سے چمن میں جانے پر بستہ ہیں کیوں گل ہی کچھ بے کیف ہیں یا تتلیاں بیمار ہیں یا کثافت ہے ہوائے تازہ کی تاثیر میں یا ہمارے گھر کے در اور کھڑکیاں بیمار ہیں ٹھہر اے شور بہاراں تھم ذرا ہنگام شوق ایک ...

    مزید پڑھیے

    احوال پریشاں پر کچھ تبصرہ اس کا بھی

    احوال پریشاں پر کچھ تبصرہ اس کا بھی حالات کے سرہانے کچھ دیر وہ رویا بھی تجدید تعلق پر کیا حرف کہ جب اس نے رشتوں کی عبارت کو لکھ لکھ کے مٹایا بھی صدیوں کی مسافت تھی اب قصۂ ماضی ہے امید کے دریا بھی احساس کے صحرا بھی کچھ دیر کو دم لینے ٹھہرے تھے یہاں ساتھی پیروں سے لپٹنے کو تیار ...

    مزید پڑھیے

تمام

20 نظم (Nazm)

    کاش

    جو تم ساتھ ہوتے تو میں تم کو رستے کا وہ پہلا پل اور وہ نالہ دکھاتا جہاں پر ہوا اپنے پر کھولتی ہے جہاں دھوپ ہر روز کچھ دیر رک جواں سال کرنوں کے در کھولتی ہے جو تم ساتھ ہوتے

    مزید پڑھیے

    سراب ذات

    میں وہ نہیں ہوں میں ہوں جو شاید میں اپنے ہونے سے کچھ الگ ہوں حیات کی کچھ علامتوں میں نگار جاں کی قباحتوں میں فریب جیسی صداقتوں میں تمام اندھی بصارتوں میں میں خود کو آواز دے رہا ہوں نہ جانے کب سے یہیں کھڑا ہوں مگر میں ہوں کب یہ میرے ہونے کا ایک دھوکہ مجھے بھی حیران کر رہا ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    خواہش

    نہیں آج سگریٹ نہیں آؤ اس موڑ تک ہو کے آئیں وہیں سامنے پل کے اس پار رستوں کے جنگل سے پیچھے وہیں چل کے اک جاوداں قہقہہ تم لگانا چلو یہ بھی اچھا رہا میں کہوں اور پھر تم سے واپس پلٹنے کا اصرار کرنے لگوں سو تم مسکرانے کی زندہ اداکاری کرتے ہوئے لوٹ آنا لوٹ آنا

    مزید پڑھیے

    شاعر

    شاعر تم کتنے بھولے ہو ہنستے ہو تو پھول سا چہرہ کھل اٹھتا ہے اور اگر تم چپ ہوتے ہو سارا جہاں چپ چپ لگتا ہے شاعر تم کو یاد تو ہوگا ایس ایل ٹی کے باہر جب ہم تم ملتے تھے بوٹنی کے باہر کی ہی باتیں کرتے تھے شاعر تم تو بھول چکے ہو گے وہ میلے جن میں لگتے تھے سپنوں وعدوں کے ٹھیلے تم کہتے تھے ...

    مزید پڑھیے

    سراب

    میں آہٹ پہ چونکا بھلا کون ہوگا دریچے سے باہر کو جھانکا کہیں کچھ نہیں ہے واہمے نے مرے آج پھر مجھ کو بہلا دیا

    مزید پڑھیے

تمام