بے کراں وسعتوں میں تنہا ہوں
بے کراں وسعتوں میں تنہا ہوں
خاک پر صورتیں بناتا ہوں
بزم میں سوئے اتفاق کہ میں
اس کے جانے کے بعد آتا ہوں
پیاس ہے میری زندگی کا پتا
میں بھی اے رہ گزار دریا ہوں
اور کچھ پل مجھے گوارہ کر
ڈوبتی شام کا تماشہ ہوں
میرے سورج تجھے خبر بھی نہیں
میں تری آس میں ہی زندہ ہوں
ایک دفتر ہے میری خاموشی
جانے کیا کیا سنانے آیا ہوں
میرے امکان میں ہے اس کا یقیں
جس کے ہونے کا استعارہ ہوں