احوال پریشاں پر کچھ تبصرہ اس کا بھی
احوال پریشاں پر کچھ تبصرہ اس کا بھی
حالات کے سرہانے کچھ دیر وہ رویا بھی
تجدید تعلق پر کیا حرف کہ جب اس نے
رشتوں کی عبارت کو لکھ لکھ کے مٹایا بھی
صدیوں کی مسافت تھی اب قصۂ ماضی ہے
امید کے دریا بھی احساس کے صحرا بھی
کچھ دیر کو دم لینے ٹھہرے تھے یہاں ساتھی
پیروں سے لپٹنے کو تیار ہے رستہ بھی
لکھا تھا جو افسانہ وہ ریت پہ لکھا تھا
پانی پہ بنایا تھا جو نقش بنایا بھی
کاغذ یہ سمجھتا ہے بار اس پہ خراشیں میں
یاں خون جگر ٹپکا جو لفظ کہ لکھا بھی
آزادؔ تجھے اس نے اپنا نہیں سمجھا بس
گو حال بھی پوچھا تھا اور ہاتھ ملایا بھی