اب تو یہ سفر اپنا آسماں سے آگے ہے

اب تو یہ سفر اپنا آسماں سے آگے ہے
مرحلہ حقیقت کا اب گماں سے آگے ہے


جس سکوں کی چاہت ہے وہ یہاں نہیں ممکن
کیونکہ اپنی منزل ہی اس جہاں سے آگے ہے


گفتگو ہماری اب کیا کوئی سمجھ پائے
فکر ہی ہماری جب ہر بیاں سے آگے ہے


اتنا محترم کوئی اور ہے زمانے میں
اس جہان میں رشتہ کوئی ماں سے آگے ہے


ڈھونڈھتی ہوں میں جس کو وہ مجھے ملے کیسے
ختم ہے جہاں رستہ وہ وہاں سے آگے ہے