توجہ چاہیں گے پھر بھی کسی بہانے سے
توجہ چاہیں گے پھر بھی کسی بہانے سے
شریر تھک گئے جب سیٹیاں بجانے سے
میں دھیرے دھیرے اسے اپنی راہ پر لائی
اندھیرا گھٹتا گیا روشنی بڑھانے سے
خدا دماغ دے ان کو چراغ دے ان کو
جو جل گئے ہیں ہمارے دیا جلانے سے
سکوت ٹوٹ گیا جیسے کتنی صدیوں کا
شجر کا سوکھا ہوا پتا چرمرانے سے