شمشاد شاد کی غزل

    بے بسی سے ہاتھ اپنے ملنے والے ہم نہیں

    بے بسی سے ہاتھ اپنے ملنے والے ہم نہیں مہربانی پر کسی کی پلنے والے ہم نہیں رہ گزر اپنی جدا ہے فلسفہ اپنا الگ جا ترے نقش قدم پر چلنے والے ہم نہیں ایک بس دل کا کیا ہے جان جاں تجھ سے سوال دل لئے بن تیرے در سے ٹلنے والے ہم نہیں ہم کہ سورج کی طرح بزدل نہیں اے ظلمتو تیرگیٔ شب سے ڈر کر ...

    مزید پڑھیے

    شر آج ظفر یاب ہے معلوم نہیں کیوں

    شر آج ظفر یاب ہے معلوم نہیں کیوں اچھائی تہہ آب ہے معلوم نہیں کیوں اک چیز وفا جس کو کہا کرتی تھی دنیا وہ ان دنوں کم یاب ہے معلوم نہیں کیوں دنیا تو مرے ساتھ نہیں جائے گی پھر بھی دنیا ہی مرا خواب ہے معلوم نہیں کیوں رہتا ہے نکلنے کے لئے ہر گھڑی بیتاب آنکھوں میں جو سیلاب ہے معلوم ...

    مزید پڑھیے

    سایہ پڑتے ہی زمیں کا ماہ پر

    سایہ پڑتے ہی زمیں کا ماہ پر چل پڑے سب دہریت کی راہ پر بارہا اس کو کیا آگاہ پر دل کسی صورت نہ آیا راہ پر یہ بھی دیکھا ہے ہماری نسل نے کٹ گئے سر کتنے اک افواہ پر ہیں جو اسرار زمیں سے نابلد تبصرہ کرتے ہیں مہر و ماہ پر ریزہ ریزہ ہو گیا رشتوں کا پل جو ٹکا تھا صرف رسم و راہ پر ہم سخن ...

    مزید پڑھیے

    بھروسہ ہر کسی کا کھو چکے ہیں

    بھروسہ ہر کسی کا کھو چکے ہیں سر بازار رسوا ہو چکے ہو چکے ہیں غلامی کر رہے ہیں خواہشوں کی دلوں کی حکمرانی کھو چکے ہیں توقع ہے محبت کے ثمر کی اگرچہ فصل نفرت بو چکے ہیں نہ رکھ ان سے مدد کی آس کوئی ضمیر ان سب کے مردہ ہو چکے ہیں بھلا باہر سے کیسے صاف ہوں گے یہ جب اندر سے میلے ہو چکے ...

    مزید پڑھیے

    جہالتوں کی غلامی سے بچ نکلنے کا

    جہالتوں کی غلامی سے بچ نکلنے کا سنبھل بھی جاؤ یہی وقت ہے سنبھلنے کا بلندیاں بھی کریں گی سلام جھک کے تمہیں شعور تم میں اگر ہے زمیں پہ چلنے کا جو ناامیدی کے بادل فلک پہ چھائے ہوں تم انتظار کرو برف کے پگھلنے کا نڈھال ہو کے لو سورج بھی محو خواب ہوا اے چاند تارو یہی وقت ہے نکلنے ...

    مزید پڑھیے

    غم کی اندھیری رات کی جانے سحر نہ آئے کیوں

    غم کی اندھیری رات کی جانے سحر نہ آئے کیوں پہروں جلے کسی کا دل زخم ابھر نہ آئے کیوں اپنے پرائے ہو گئے غیروں نے بھی کیا ستم ایسے میں دردمند دل درد سے بھر نہ آئے کیوں تیرا ہی جب خیال ہے آٹھوں پہر دماغ میں جاگتے سوتے ہر طرف تو ہی نظر نہ آئے کیوں تیرے بنا اب ایک پل مجھ سے رہا نہ جائے ...

    مزید پڑھیے

    حرف اثبات کی تقلید سے آغاز کیا

    حرف اثبات کی تقلید سے آغاز کیا صبح کا رات پہ تنقید سے آغاز کیا شعر گوئی کے سفر کا میاں ناصح ہم نے اپنے افکار کی تجدید سے آغاز کیا جو پس و پیش کہ سوچوں تو لرز جاتا ہوں اس کی ترجیح نے تردید سے آغاز کیا دیکھتا کیا ہے مرا شوق جنوں میں نے تو اپنے ہر دن کا تری دید سے آغاز کیا عرض‌ ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے نام رتبہ اور نہ خد و خال سے مطلب

    کسی کے نام رتبہ اور نہ خد و خال سے مطلب کراماً کاتبیں کو خلق کے اعمال سے مطلب یہ بس سانسوں کی لے پر نام اس کا جپتے رہتے ہیں فقیروں کو نہیں ہوتا میاں سر تال سے مطلب میسر آئیں ان کو زندگی کی ساری سوغاتیں جنہیں ہے اس جہاں میں شوکت و اقبال سے مطلب اگر اس دور میں اٹھنا ہے تو اٹھ جانے ...

    مزید پڑھیے

    زندہ رہے تو ہم کو نہ پہچان دی گئی

    زندہ رہے تو ہم کو نہ پہچان دی گئی مرنے کے بعد خوب پذیرائی کی گئی کیا کیا ستم ہوئے ہیں میرے ساتھ بارہا دھوکے سے کتنی بار مری جان لی گئی سینے سے میرے نوچ لی تصویر یار بھی شریان زندگی ہی مری کاٹ دی گئی تنہائیوں میں میں تیری یادوں کے ساتھ تھا محفل سجی تو یادوں سے وابستگی گئی اس لا ...

    مزید پڑھیے

    بہانے ڈھونڈ نہ یوں ہم سے دور جانے کے

    بہانے ڈھونڈ نہ یوں ہم سے دور جانے کے گئے جو دور تو پھر پاس ہم نہ آنے کے نظر ملا کے یکایک نظر جھکا لینا طریقے خوب نکالے ہیں ہوش اڑانے کے گلوں پہ رنگ چڑھا ہے مہک رہی ہے فضا کہ موسم آ گئے کلیوں کے ناز اٹھانے کے نمک لئے ہوئے پھرتے ہیں لوگ مٹھی میں جگر کے زخم کسی کو نہ ہم دکھانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4