بے بسی سے ہاتھ اپنے ملنے والے ہم نہیں

بے بسی سے ہاتھ اپنے ملنے والے ہم نہیں
مہربانی پر کسی کی پلنے والے ہم نہیں


رہ گزر اپنی جدا ہے فلسفہ اپنا الگ
جا ترے نقش قدم پر چلنے والے ہم نہیں


ایک بس دل کا کیا ہے جان جاں تجھ سے سوال
دل لئے بن تیرے در سے ٹلنے والے ہم نہیں


ہم کہ سورج کی طرح بزدل نہیں اے ظلمتو
تیرگیٔ شب سے ڈر کر ڈھلنے والے ہم نہیں


مکر کا عنصر ہماری خو میں پاؤ گے نہ تم
میٹھی باتوں سے کسی کو چھلنے والے ہم نہیں


تیری مرضی سے ہی پھلتی پھولتی ہے زندگی
تو نہ چاہے تو خدایا پھلنے والے ہم نہیں


ہم کہ اپنی ذات میں بے فکر و بے پروا ہیں شادؔ
سوزش رنج و الم میں جلنے والے ہم نہیں