شر آج ظفر یاب ہے معلوم نہیں کیوں
شر آج ظفر یاب ہے معلوم نہیں کیوں
اچھائی تہہ آب ہے معلوم نہیں کیوں
اک چیز وفا جس کو کہا کرتی تھی دنیا
وہ ان دنوں کم یاب ہے معلوم نہیں کیوں
دنیا تو مرے ساتھ نہیں جائے گی پھر بھی
دنیا ہی مرا خواب ہے معلوم نہیں کیوں
رہتا ہے نکلنے کے لئے ہر گھڑی بیتاب
آنکھوں میں جو سیلاب ہے معلوم نہیں کیوں
ویسے تو پڑھا لکھا ہے اس دور کا انساں
ناواقف آداب ہے معلوم نہیں کیوں
بے چین مرے ذہن کو کرتی ہے یہی بات
قدرت پس سیلاب ہے معلوم نہیں کیوں
مجھ کو تو سبب کوئی نظر ہی نہیں آتا
گم جلوۂ مہتاب ہے معلوم نہیں کیوں
اس دل کا ہر اک ناز اٹھاتا ہوں میں لیکن
ہر لمحہ یہ بیتاب ہے معلوم نہیں کیوں
ہر رنگ زمانے کا میسر ہے مگر شادؔ
یہ زندگی بے آب ہے معلوم نہیں کیوں