غم کی اندھیری رات کی جانے سحر نہ آئے کیوں

غم کی اندھیری رات کی جانے سحر نہ آئے کیوں
پہروں جلے کسی کا دل زخم ابھر نہ آئے کیوں


اپنے پرائے ہو گئے غیروں نے بھی کیا ستم
ایسے میں دردمند دل درد سے بھر نہ آئے کیوں


تیرا ہی جب خیال ہے آٹھوں پہر دماغ میں
جاگتے سوتے ہر طرف تو ہی نظر نہ آئے کیوں


تیرے بنا اب ایک پل مجھ سے رہا نہ جائے ہے
ڈھونڈے تجھے مری نظر تیری خبر نہ آئے کیوں


حسن و جمال دل فریب اس پہ یہ سادگی تو دوست
عقل تری اداؤں کے زیر اثر نہ آئے کیوں


صحن چمن میں ویسے تو گل ہیں ہر ایک رنگ کے
تیرے سوا کسی پہ بھی دل یہ مگر نہ آئے کیوں


خود ہی عداوتوں کا بیج بویا ہے آپ نے تو پھر
کینہ نفاق و بغض کا اس میں ثمر نہ آئے کیوں


اپنے کرم کی روشنی اس نے بکھیر دی تو شادؔ
رنگ ہمارے بخت کا بولو نکھر نہ آئے کیوں