سایہ پڑتے ہی زمیں کا ماہ پر

سایہ پڑتے ہی زمیں کا ماہ پر
چل پڑے سب دہریت کی راہ پر


بارہا اس کو کیا آگاہ پر
دل کسی صورت نہ آیا راہ پر


یہ بھی دیکھا ہے ہماری نسل نے
کٹ گئے سر کتنے اک افواہ پر


ہیں جو اسرار زمیں سے نابلد
تبصرہ کرتے ہیں مہر و ماہ پر


ریزہ ریزہ ہو گیا رشتوں کا پل
جو ٹکا تھا صرف رسم و راہ پر


ہم سخن دانوں کو مال و زر سے کیا
ہم تو بک جاتے ہیں صرف اک واہ پر


اک اشارہ تو ذرا کرتے کبھی
جان دے دیتے تمہاری چاہ پر


جیتنی بازی ہے جو شطرنج کی
رکھ نگاہیں ہر گھڑی تو شاہ پر


کیوں کسی کے آگے پھیلاؤں میں ہاتھ
میرا ایماں ہے مرے اللہ پر


کان کوئی کیوں نہیں دھرتا یہاں
شادؔ اس دل سے نکلتی آہ پر