ضبط سے یوں بھی کام لیا ہے

ضبط سے یوں بھی کام لیا ہے
کانٹوں میں آرام لیا ہے


چاہے جدھر لے جائے محبت
اب تو دامن تھام لیا ہے


کاش وہی آرام سے رہتا
جس نے مرا آرام لیا ہے


حسن نے جب ٹھوکر کھائی ہے
عشق نے بازو تھام لیا ہے


ساقی کا احساں نہیں ہم پر
خون دیا ہے جام لیا ہے


ٹھوکر کھائی بڑھ گئے آگے
ناکامی سے کام لیا ہے


حسن بتاں کو دیکھ کے شاربؔ
ہم نے خدا کا نام لیا ہے