محبت ہٹ رہی ہے درمیاں سے
محبت ہٹ رہی ہے درمیاں سے
زمیں ٹکرا نہ جائے آسماں سے
وہ منزل سخت ہے ہر امتحاں سے
محبت رخ بدلتی ہے جہاں سے
ہزاروں ماہ و انجم ہیں تہ خاک
زمیں کچھ کم نہیں ہے آسماں سے
منور ہیں ابھی تک وہ مقامات
میں تیرے ساتھ گزرا ہوں جہاں سے
زمیں کی پستیوں میں کھو گئے ہیں
زمیں ٹکرانے والے آسماں سے
مری آنکھوں میں آنسو تو بہت ہیں
مگر دامن ترا لاؤں کہاں سے
زمیں کی خاک تک دے دی زمیں کو
میں دامن جھاڑ کے اٹھا جہاں سے
مقام آشیاں کی جستجو میں
گزر جا بجلیوں کے درمیاں سے
مسلسل امتحاں ہے زندگانی
کہیں گھبرا نہ جانا امتحاں سے
بنانا ہے مجھے خود اپنی منزل
الگ ہوں نقش پائے کارواں سے
وہی دنیا الٹ دیتے ہیں شاربؔ
جو اکثر کچھ نہیں کہتے زباں سے