مجھے اتنی ہی قدر زندگانی ہوتی جاتی ہے
مجھے اتنی ہی قدر زندگانی ہوتی جاتی ہے
کسی کی جتنی مجھ پر مہربانی ہوتی جاتی ہے
خدا معلوم یہ کیسا زمانہ آتا جاتا ہے
کہ ہر ہر سانس اب تو امتحانی ہوتی جاتی ہے
محبت کرنے والا سوئے منزل بڑھتا جاتا ہے
جو مشکل آتی جاتی ہے وہ پانی ہوتی جاتی ہے
جدھر جاؤ مصیبت ہے جدھر دیکھو مصیبت ہے
مصیبت اب تو جزو زندگانی ہوتی جاتی ہے
خدا کا شکر دل راہ وفا میں مٹتا جاتا ہے
جو فانی چیز ہے وہ جاودانی ہوتی جاتی ہے
ہم اپنا دور ماضی بھولتے جاتے ہیں اے شاربؔ
قیامت ہے حقیقت بھی کہانی ہوتی جاتی ہے