یہ زندگی تو بہت کم ہے دوستی کے لئے
یہ زندگی تو بہت کم ہے دوستی کے لئے
کہاں سے وقت نکلتا ہے دشمنی کے لئے
یہ آتی جاتی ہوئی سانس زندگی کے لئے
اک امتحان مسلسل ہے آدمی کے لئے
یہ عہد نو کا اندھیرا ارے معاذ اللہ
ترس رہے ہیں چراغ اپنی روشنی کے لئے
انہیں گلوں کا تبسم تو دیکھ لینے دو
تمام عمر جو ترسا کئے ہنسی کے لئے
یہ اہل ہوش مرے راستے سے ہٹ جائیں
بہت ہے میرا جنوں میری رہبری کے لئے
کوئی رکے کہ چلے گر پڑے کہ تھک جائے
گزرتا وقت ٹھہرتا نہیں کسی کے لئے
کسے خبر تھی کہ جل جائے گا چمن شاربؔ
چراغ ہم نے جلائے تھے روشنی کے لئے