کب میرے واسطے کوئی مشکل نہیں رہی
کب میرے واسطے کوئی مشکل نہیں رہی
کب موت زندگی کے مقابل نہیں رہی
دنیا کی دوستی کا تو کیا ذکر کیجیے
دنیا تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رہی
یوں میری زندگی ہے ہر اک شے سے دور دور
جیسے یہ کائنات میں شامل نہیں رہی
تصویر انقلاب بنا جا رہا ہوں میں
اب میری مستقل کوئی منزل نہیں رہی
اظہار بے وفائیٔ دنیا نہ کیجیے
دنیا کسی کے درد میں شامل نہیں رہی
نقشے بدل چکے ہیں نظام حیات کے
کشتیٔ زیست طالب ساحل نہیں رہی
آیا ہر ایک گام پہ اک انقلاب نو
انساں کی مستقل کوئی منزل نہیں رہی
خود مشکلوں کو جس نے گلے سے لگا لیا
پھر اس کے واسطے کوئی مشکل نہیں رہی
شاربؔ یہ کیا ہوا کہ ہر اک شے ہے اجنبی
وہ ہم نہیں رہے کہ وہ محفل نہیں رہی