Shan Bharti

شان بھارتی

شان بھارتی کی غزل

    میں حد لا مکانی چاہتا ہوں

    میں حد لا مکانی چاہتا ہوں یہ کیسی سرگرانی چاہتا ہوں تری آنکھوں میں پانی چاہتا ہوں بس اتنی مہربانی چاہتا ہوں جسے سنتے ہی سو جاتے تھے بچے وہی بھولی کہانی چاہتا ہوں یہ ہے میری طبیعت کا تقاضا ہر اک پل امتحانی چاہتا ہوں نہیں لگتا مرا اب شہر میں جی حقیقت داستانی چاہتا ہوں کئی ...

    مزید پڑھیے

    منافقت کا ہر امکان ڈھا کے نکلے تھے

    منافقت کا ہر امکان ڈھا کے نکلے تھے جو گھر کی آگ سے دامن بچا کے نکلے تھے لہولہان ہوئے یوں کہ کھو گئی پہچان ہم اپنے چہرے پہ وعدے سجا کے نکلے تھے نگاہ اہل ہوس کس لئے ہوئی خاموش کچھ آستین میں ہم بھی چھپا کے نکلے تھے خدا ہی جانے جبینوں پہ نور سا کیوں تھا وہ کون تھے جو گھر اپنا لٹا کے ...

    مزید پڑھیے

    جس طرح بھی برسر پیکار ہونا تھا ہوئے

    جس طرح بھی برسر پیکار ہونا تھا ہوئے زندگی کا ہم کو دعوے دار ہونا تھا ہوئے تیرے جلوؤں تک رسائی کے لئے آنکھیں نہ تھیں پھر بھی تیرا طالب دیدار ہونا تھا ہوئے دشمنی کے نام پر تو ہو چکا میدان صاف دوستوں کو بیچ کی دیوار ہونا تھا ہوئے یوں تو سب کو اعتماد اپنے پروں پر تھا مگر جن پرندوں ...

    مزید پڑھیے

    پڑی وہ زد کہ نگاہوں کا حوصلہ ٹوٹا

    پڑی وہ زد کہ نگاہوں کا حوصلہ ٹوٹا تمہارے عکس کی جھلمل سے آئنہ ٹوٹا زمین شق ہوئی آنکھوں میں بھر گیا سورج ہمارے سر پہ اچانک وہ حادثہ ٹوٹا گجر کا شور اذاں کی پکار کیا کہئے خدا سے میرے تکلم کا سلسلہ ٹوٹا ہماری فکر حد آسماں سے آگے تھی مگر کبھی نہ روایت سے واسطہ ٹوٹا تغیرات کی رو کب ...

    مزید پڑھیے

    جو رخ پہ ڈالے ہوئے وہ نقاب نکلے گا

    جو رخ پہ ڈالے ہوئے وہ نقاب نکلے گا اک انقلاب پس انقلاب نکلے گا ابھی تک اوڑھے ہوئے ہوں میں برف کی چادر ہے انتظار ابھی آفتاب نکلے گا سفر کے ساتھ شعور سفر ضروری ہے قدم قدم پہ نیا اک سراب نکلے گا چبھن جو ہوتی ہے تم کو تو دیکھنا اک دن ہر ایک لفظ ہمارا گلاب نکلے گا اگر تلاش کرو گے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3