جس طرح بھی برسر پیکار ہونا تھا ہوئے
جس طرح بھی برسر پیکار ہونا تھا ہوئے
زندگی کا ہم کو دعوے دار ہونا تھا ہوئے
تیرے جلوؤں تک رسائی کے لئے آنکھیں نہ تھیں
پھر بھی تیرا طالب دیدار ہونا تھا ہوئے
دشمنی کے نام پر تو ہو چکا میدان صاف
دوستوں کو بیچ کی دیوار ہونا تھا ہوئے
یوں تو سب کو اعتماد اپنے پروں پر تھا مگر
جن پرندوں کو افق کے پار ہونا تھا ہوئے
اپنے اس انجام کا شکوہ بھی ہم کس سے کریں
کاروبار عشق میں بیکار ہونا تھا ہوئے
دیکھتے ہی رہ گئے سب حاسدان نیک نام
جس قبیلے کا ہمیں سردار ہونا تھا ہوئے
گم رہے تاریکیوں میں شانؔ اس کے باوجود
ہم کو آخر نور کا مینار ہونا تھا ہوئے