منافقت کا ہر امکان ڈھا کے نکلے تھے

منافقت کا ہر امکان ڈھا کے نکلے تھے
جو گھر کی آگ سے دامن بچا کے نکلے تھے


لہولہان ہوئے یوں کہ کھو گئی پہچان
ہم اپنے چہرے پہ وعدے سجا کے نکلے تھے


نگاہ اہل ہوس کس لئے ہوئی خاموش
کچھ آستین میں ہم بھی چھپا کے نکلے تھے


خدا ہی جانے جبینوں پہ نور سا کیوں تھا
وہ کون تھے جو گھر اپنا لٹا کے نکلنے تھے


سب اہل خیر نہیں ہے جو ملنے آتے ہیں
یہ راز گھر میں ہم اپنا بتا کے نکلے تھے


کسے خبر تھی کہ آگے بھی ہے کوئی دیوار
کہ دل سے ہم تو یہ خدشہ مٹا کے نکلے تھے


بفیض چارہ گری اور بڑھ گئیں ٹیسیں
تری گلی سے عجب زخم کھا کے نکلے تھے


شروع ہم نے کیا تھا سفر وہاں سے شانؔ
جہاں سے راستے دشت بلا کے نکلے تھے