میں حد لا مکانی چاہتا ہوں
میں حد لا مکانی چاہتا ہوں
یہ کیسی سرگرانی چاہتا ہوں
تری آنکھوں میں پانی چاہتا ہوں
بس اتنی مہربانی چاہتا ہوں
جسے سنتے ہی سو جاتے تھے بچے
وہی بھولی کہانی چاہتا ہوں
یہ ہے میری طبیعت کا تقاضا
ہر اک پل امتحانی چاہتا ہوں
نہیں لگتا مرا اب شہر میں جی
حقیقت داستانی چاہتا ہوں
کئی راتوں سے نیند آئی نہیں ہے
میں کچھ جھوٹی کہانی چاہتا ہوں
مری اس سادگی کی داد تو دے
ترا وعدہ زبانی چاہتا ہوں
کوئی گم کردۂ منزل ملے تو
میں اپنا نقش ثانی چاہتا ہوں
تمہاری گفتگو میں شانؔ صاحب
غزل جیسی روانی چاہتا ہوں