جو رخ پہ ڈالے ہوئے وہ نقاب نکلے گا
جو رخ پہ ڈالے ہوئے وہ نقاب نکلے گا
اک انقلاب پس انقلاب نکلے گا
ابھی تک اوڑھے ہوئے ہوں میں برف کی چادر
ہے انتظار ابھی آفتاب نکلے گا
سفر کے ساتھ شعور سفر ضروری ہے
قدم قدم پہ نیا اک سراب نکلے گا
چبھن جو ہوتی ہے تم کو تو دیکھنا اک دن
ہر ایک لفظ ہمارا گلاب نکلے گا
اگر تلاش کرو گے زبان کا شاعر
تو شان بھارتیؔ ہی انتخاب نکلے گا