شمس فریدی کی غزل

    کیسے کیسے موسم گزرے یاد نہیں

    کیسے کیسے موسم گزرے یاد نہیں سر پر کتنے پتھر برسے یاد نہیں زخم پہ اس نے مرہم رکھا یاد رہا دل میں کتنے نشتر ٹوٹے یاد نہیں میں بھی تھک کر ہانپ رہا ہوں رستے میں کتنے سنگی ساتھی بچھڑے یاد نہیں بیوی بچوں کا اب رونا دھونا کیا ہم کو تو خود اپنے نوحے یاد نہیں تم دنیا داری میں رہتے ہو ...

    مزید پڑھیے

    سلسلے پیار کے کچھ اور گھٹیں گے شاید

    سلسلے پیار کے کچھ اور گھٹیں گے شاید فاصلے دل کے ابھی اور بڑھیں گے شاید اپنی ہی لاش اٹھائے ہوئے کوچہ کوچہ اپنے کاندھے پہ لئے لوگ پھریں گے شاید بارش سنگ ہمارے ہی سروں پر ہوگی اور پھر سر بھی ہمارے ہی کٹیں گے شاید اس زمیں پر ہے یہ صدیوں کی نشانی لیکن اس کے آثار مگر اب کے مٹیں گے ...

    مزید پڑھیے

    سچ بولنے کے جرم میں نیزے پہ سر رہا

    سچ بولنے کے جرم میں نیزے پہ سر رہا قاتل بہ عز و جاہ بھی نا معتبر رہا کیا بارش بلا تھی کہ سب کچھ بہا گئی اچھا ہوا ملنگ بے دیوار و در رہا یا رب خطا معاف کہاں ڈھونڈھتا تجھے میں اپنی ہی تلاش میں شام و سحر رہا آزاد ہو چکا تھا قفس سے تو کیا ہوا اڑتا کہاں پرند جو بے بال و پر رہا چاروں ...

    مزید پڑھیے

    مہتابوں کا تو شہزادہ میرے ساتھ اندھیرے ہیں

    مہتابوں کا تو شہزادہ میرے ساتھ اندھیرے ہیں شہر و شبستاں تیرے ہیں صحرا و بیاباں میرے ہیں میرے اجڑے دل میں ادھورے ارمانوں کے ڈیرے ہیں جاگتی آنکھوں میں جیسے ٹوٹے سپنوں کے گھیرے ہیں بے مفہومی دھندلے پیکر بکھرے بکھرے خواب و خیال اپنی باہوں کے حلقے میں جیسے مجھ کو گھیرے ہیں دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    بے سمت یہ سفر ہے ذرا دیکھ کر چلو

    بے سمت یہ سفر ہے ذرا دیکھ کر چلو انجان رہ گزر ہے ذرا دیکھ کر چلو گزرا ادھر سے جو بھی وہ پتھر میں ڈھل گیا جادو کا یہ نگر ہے ذرا دیکھ کر چلو پتھر پگھل رہے ہیں تمازت سے دھوپ کی یہ دشت بے شجر ہے ذرا دیکھ کر چلو کرنے لگے ہیں رقص بگولے ہواؤں میں طوفان تیز تر ہے ذرا دیکھ کر چلو دامن ...

    مزید پڑھیے

    دلدل میں دھنس گئے ہم دے کر تمہیں سہارا کیا اور چاہتے ہو

    دلدل میں دھنس گئے ہم دے کر تمہیں سہارا کیا اور چاہتے ہو جو کچھ بھی تھا ہمارا وہ سب ہوا تمہارا کیا اور چاہتے ہو ہم سے اگر گلہ ہے تم کو نہ دے سکے کچھ تو آؤ شوق سے تم اک جاں بچی ہے اپنی لے لو اسے خدارا کیا اور چاہتے ہو اپنی وفا کے بدلے دیکھو ہمارے سر پر بارش ہے پتھروں کی یہ گھر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دشت پر ہول میں یہ کس کی صدا گونجتی ہے

    دشت پر ہول میں یہ کس کی صدا گونجتی ہے خوف و دہشت سے یہاں ساری فضا گونجتی ہے کیسا سناٹا ہے اس عالم آب و گل میں اب کہیں میں ہوں نہ اب میری صدا گونجتی ہے دل میں جتنے بھی تھے ہنگامے سبک دوش ہوئے میرے اطراف میں خاموش بلا گونجتی ہے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی یا رب تیری سرگوشی مگر مجھ ...

    مزید پڑھیے

    ایک ہی پل میں ہوا آنکھ سے منظر غائب

    ایک ہی پل میں ہوا آنکھ سے منظر غائب ریت ہی ریت رہی اور سمندر غائب سب کے چہرے پہ ہنسی کھیل رہی ہے لیکن سب کے چہرے ہی نظر آتے ہیں پیکر غائب کون ہیں لوگ یہاں کن کی پڑی ہیں لاشیں جسم ہی جسم کے انبار ہیں اور سر غائب کون وشواس کرے گا میں بتاؤں کس کو میرا میں ہو گیا ہے میرے ہی اندر ...

    مزید پڑھیے

    اس جہان بے جہاں میں دل لگا پاویں گے کیا

    اس جہان بے جہاں میں دل لگا پاویں گے کیا چھوڑ کر اپنے جہاں کو ہم نہ پچھتاویں گے کیا دھیمی دھیمی آنچ سی رہتی ہے سینے میں مدام موم کی مانند اک دن ہم پگھل جاویں گے کیا کیوں بضد ہو تم بھی میرے ساتھ چلنے کے لئے چلتے چلتے پاؤں میں چھالے نہ پڑ جاویں گے کیا دم بہ دم ہم جل رہے ہیں آگہی کی ...

    مزید پڑھیے

    شمسؔ کہاں وہ الہامی تھی

    شمسؔ کہاں وہ الہامی تھی سیدھی سی اک بات کہی تھی ساتھ ترے جو شب بیتی تھی مجھ پر کیسی مدہوشی تھی بارش سے میں بھیگ چکا تھا پھر بھی کیسی تشنہ لبی تھی میں لاشوں کے بیچ کھڑا تھا گھر کی ہر دیوار گری تھی ایک برہنہ پیڑ کھڑا تھا ٹوٹی اس کی ہر ڈالی تھی آگ بجھانے لوگ آئے تھے بستی جل کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2