کیسے کیسے موسم گزرے یاد نہیں
کیسے کیسے موسم گزرے یاد نہیں سر پر کتنے پتھر برسے یاد نہیں زخم پہ اس نے مرہم رکھا یاد رہا دل میں کتنے نشتر ٹوٹے یاد نہیں میں بھی تھک کر ہانپ رہا ہوں رستے میں کتنے سنگی ساتھی بچھڑے یاد نہیں بیوی بچوں کا اب رونا دھونا کیا ہم کو تو خود اپنے نوحے یاد نہیں تم دنیا داری میں رہتے ہو ...