مہتابوں کا تو شہزادہ میرے ساتھ اندھیرے ہیں

مہتابوں کا تو شہزادہ میرے ساتھ اندھیرے ہیں
شہر و شبستاں تیرے ہیں صحرا و بیاباں میرے ہیں


میرے اجڑے دل میں ادھورے ارمانوں کے ڈیرے ہیں
جاگتی آنکھوں میں جیسے ٹوٹے سپنوں کے گھیرے ہیں


بے مفہومی دھندلے پیکر بکھرے بکھرے خواب و خیال
اپنی باہوں کے حلقے میں جیسے مجھ کو گھیرے ہیں


دھوپ کی چادر کے نیچے صرف اپنے بدن کا سایہ ہے
خیموں کے جنگل میں کہنے کو ڈیرے تو بہتیرے ہیں


کس سے دل کی بات کروں میں رو رو چپ رہ جاتا ہوں
بکھرا کمرہ ڈستی راتیں سناٹوں کے ڈیرے ہیں


لفظوں کی بہتات سے یوں تو مشکل ہے پہچان کروں
باتوں سے تو شمسؔ ہے لگتا جیسے سب ہی میرے ہیں