شمس فریدی کی غزل

    بے سمت یہ سفر ہے ذرا دیکھ کر چلو

    بے سمت یہ سفر ہے ذرا دیکھ کر چلو انجان رہ گزر ہے ذرا دیکھ کر چلو گزرا ادھر سے جو بھی وہ پتھر میں ڈھل گیا جادو کا یہ نگر ہے ذرا دیکھ کر چلو پتھر پگھل رہے ہیں تمازت سے دھوپ کی یہ دشت بے شجر ہے ذرا دیکھ کر چلو کرنے لگے ہیں رقص بگولے ہواؤں میں طوفان تیز تر ہے ذرا دیکھ کر چلو دامن ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی تمہاری یاد کی آہٹ مجھے ملی

    جب بھی تمہاری یاد کی آہٹ مجھے ملی تنہائی کانپتی ہوئی مجھ سے جدا ہوئی آواز دے کے کس کو بلاؤں میں اپنے پاس ظلمت کی چار سو مرے دیوار اٹھ گئی وہ لوگ اتنی دیر میں کس سمت کو گئے ساحل پہ آ چکا تھا سفینہ ابھی ابھی ہیں شعلہ بار تاروں کی آنکھیں نہ جانے کیوں جھلسا رہی ہے جسم کو کیوں آج ...

    مزید پڑھیے

    چادر کو کھینچتے ہیں جگاتے ہیں رات میں

    چادر کو کھینچتے ہیں جگاتے ہیں رات میں بے چہرہ لوگ مجھ کو ڈراتے ہیں رات میں دن بھر خموش رہتے ہیں جو طائران درد کمرے میں آ کے شور مچاتے ہیں رات میں دروازہ بند کر کے بھی سونا محال ہے کس راہ سے نہ جانے در آتے ہیں رات میں مجھ سے وہ دن میں ملتے ہیں بے اعتنائی سے خوابوں میں آ کے مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    ریگ زار حیات سے گزرے

    ریگ زار حیات سے گزرے ہر قدم حادثات سے گزرے خار‌‌ و خاشاک کا غبار لئے گلشن کائنات سے گزرے تجھ کو پانے کی جستجو یا رب ہم حد کائنات سے گزرے سب کو ہے دعویٰٔ ہمہ دانی کتنے عرفان ذات سے گزرے تیرے گھر کا طواف کرتے ہوئے عالم شش جہات سے گزرے عرش ہلنے لگا تھا آل رسول تشنہ لب جب فرات سے ...

    مزید پڑھیے

    بے سمت یہ سفر ہے ذرا دیکھ کر چلو

    بے سمت یہ سفر ہے ذرا دیکھ کر چلو انجان رہ گزر ہے ذرا دیکھ کر چلو گزرا ادھر سے جو بھی وہ پتھر میں ڈھل گیا جادو کا یہ نگر ہے ذرا دیکھ کر چلو پتھر پگھل رہے ہیں تمازت سے دھوپ کی یہ دشت بے شجر ہے ذرا دیکھ کر چلو کرنے لگے ہیں رقص بگولے ہواؤں میں طوفان تیز تر ہے ذرا دیکھ کر چلو دامن ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی صلیب پر کوئی عیسیٰ دکھائی دے

    جب بھی صلیب پر کوئی عیسیٰ دکھائی دے ساری فضا میں نور بکھرتا دکھائی دے اس چاندنی کی زد سے بچا لے کوئی مجھے میرا ہی سایہ مجھ کو ڈراتا دکھائی دے پوشیدہ کائنات ہے اس سر زمین میں دیکھو اسے جو دور سے نقطہ دکھائی دے اس شہر درد و داغ میں کس کس کو ڈھونڈئیے ہر شخص اپنے آپ میں چھپتا ...

    مزید پڑھیے

    قافلے کو بھٹک ہی جانا ہے

    قافلے کو بھٹک ہی جانا ہے راستے میں غبار اتنا ہے پھر گھنی رات میں اجالا ہے دل میں روشن وہ چاند چہرہ ہے خار زاروں میں جسم الجھا ہے خشک آنکھوں میں ایک صحرا ہے لوگ آتے ہیں اور جاتے ہیں جیسے دنیا سرائے خانہ ہے خامشی کرب ہے سمندر کا تہہ میں طوفان اٹھتا رہتا ہے چیختا رہتا ہے نگر ...

    مزید پڑھیے

    یہ ابتدا ہے ابھی باب اختتام کہاں

    یہ ابتدا ہے ابھی باب اختتام کہاں لہو ترنگ کا قصہ ہوا تمام کہاں لکھی ہے خون سے ہم نے حکایت ہستی مگر کتاب میں ہوگا ہمارا نام کہاں ہمارا نام نہ پوچھو نہ کچھ پتا پوچھو ہماری صبح کہاں ہے ہماری شام کہاں ہمیں تو کچھ بھی نہیں ہے خبر کہ اب کے ہم اگر اٹھیں گے یہاں سے تو پھر قیام ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2