شمسؔ کہاں وہ الہامی تھی

شمسؔ کہاں وہ الہامی تھی
سیدھی سی اک بات کہی تھی


ساتھ ترے جو شب بیتی تھی
مجھ پر کیسی مدہوشی تھی


بارش سے میں بھیگ چکا تھا
پھر بھی کیسی تشنہ لبی تھی


میں لاشوں کے بیچ کھڑا تھا
گھر کی ہر دیوار گری تھی


ایک برہنہ پیڑ کھڑا تھا
ٹوٹی اس کی ہر ڈالی تھی


آگ بجھانے لوگ آئے تھے
بستی جل کر خاک ہوئی تھی


شہروں شہروں سناٹا تھا
گرم ہوا بس چیخ رہی تھی