Sham Rizvi

شام رضوی

  • 1944

شام رضوی کی غزل

    جو سامنے ہے مرے وہ غبار کیا ہوگا

    جو سامنے ہے مرے وہ غبار کیا ہوگا اب اس سے بڑھ کے مرا انتشار کیا ہوگا تمام ذرے بکھر کر سمیٹ لیں گے مجھے یہ جانتا ہوں سر کہسار کیا ہوگا ہر ایک عہد میں ٹوٹا ہوں پھر بھی جانتا ہوں شکستہ لوگوں میں میرا شمار کیا ہوگا ہر ایک شخص جہاں اپنے آپ میں گم ہو وہاں ہم اہل ہنر کا شمار کیا ...

    مزید پڑھیے

    نہ سنگ راہ نہ سد قیود کی صورت

    نہ سنگ راہ نہ سد قیود کی صورت میں ڈھ رہا ہوں اب اپنے وجود کی صورت جگہ پہ اپنی جما ہے وہ سنگ کی مانند بکھر رہا ہوں میں دیوار دود کی صورت جبیں پہ خاک تقدس ہوں مجھ کو پہچانو چمک رہا ہوں میں نقش سجود کی صورت مری نظر میں تیقن کی دھوپ روشن ہو کبھی تو پھیلے وہ رنگ شہود کی صورت گذشتہ ...

    مزید پڑھیے

    ردائے خاک طلب دور تک بچھا بھی دے

    ردائے خاک طلب دور تک بچھا بھی دے برہنہ راہ کو پیراہن صدا بھی دے میں ایک سادہ ورق ہوں تری کہانی کا جو ہو سکے تو مجھے داستاں بنا بھی دے ہمارے درمیاں حائل ہے دشمنوں کی طرح جو ہو سکے تو یہ دیوار خوف ڈھا بھی دے جنم جنم سے ہم اپنی تلاش میں گم ہیں ہم اہل درد کو ہم سے کبھی ملا بھی ...

    مزید پڑھیے

    لہو لہان تھا منظر ہوا شکستہ تھی

    لہو لہان تھا منظر ہوا شکستہ تھی ہمارے چاروں طرف اک عجیب دنیا تھی مری نگاہ اترتی چلی گئی اندر ہر ایک شکل مرے سامنے برہنہ تھی کسی صدی کا بھی طوفان ڈھا سکا نہ اسے یہ اور بات کہ دیوار وقت خستہ تھی گزر چکی ہے جو اب اس کی جستجو نہ کرو وہ زندگی تو کسی خواب کا کرشمہ تھی ہزاروں عکس پس ...

    مزید پڑھیے

    ہر گوشے میں بکھرے ہوئے سناٹوں کے ڈر سے

    ہر گوشے میں بکھرے ہوئے سناٹوں کے ڈر سے ویرانیاں گھبرا کے نکل آئی ہیں گھر سے اس درجہ تھکے ماندے نظر آتے ہیں چہرے لوٹا ہو کوئی جیسے بہت لمبے سفر سے جس سمت گھنی چھاؤں کے خیمے سے تنے ہیں گزرا ہے کڑی دھوپ کا لشکر بھی ادھر سے اکثر ہوا ایسا کہ بھرے گھر میں سر شام تنہائی کے آسیب در و ...

    مزید پڑھیے

    دن مہینے سال سب کے سب لگے بیمار سے

    دن مہینے سال سب کے سب لگے بیمار سے جھانکتی ہیں ہڈیاں اب وقت کی دیوار سے اب سیاہی کی گھنی شاخوں کا ماتم کیجئے پتیاں جھڑنے لگی ہیں رات کے اشجار سے لگ گئی ہے چپ سی اب ذہن ہنر خاموش ہے رابطہ جس دن سے ٹوٹا ہے لب اظہار سے دیکھتے ہیں مجھ کو ننگی دھوپ شرمندہ ہوئی سایۂ دیوار نے کیا کہہ ...

    مزید پڑھیے

    دل بھی بضد ہے اور تقاضائے یار بھی

    دل بھی بضد ہے اور تقاضائے یار بھی اک بوجھ ہے انا کا لبادہ اتار بھی اپنی شکستگی کا مجھے غم نہیں مگر بکھرے پڑے ہوئے ہیں یہاں وضع دار بھی وہ قہر ہے کہ دشت و بیاباں پہ بس نہیں اڑتی ہے خاک اب کے سر کہسار بھی گھٹ جائے گا شکستہ بدن کے حصار میں تو اپنے آپ کو کہیں رک کر پکار بھی خود کو ...

    مزید پڑھیے