دن مہینے سال سب کے سب لگے بیمار سے
دن مہینے سال سب کے سب لگے بیمار سے
جھانکتی ہیں ہڈیاں اب وقت کی دیوار سے
اب سیاہی کی گھنی شاخوں کا ماتم کیجئے
پتیاں جھڑنے لگی ہیں رات کے اشجار سے
لگ گئی ہے چپ سی اب ذہن ہنر خاموش ہے
رابطہ جس دن سے ٹوٹا ہے لب اظہار سے
دیکھتے ہیں مجھ کو ننگی دھوپ شرمندہ ہوئی
سایۂ دیوار نے کیا کہہ دیا دیوار سے
بھول بیٹھا ہوں صداؤں کے سمندر کو مگر
وہ صدا جو اب بھی آتی ہے سمندر پار سے
اس سفر میں بھی مجھے اے شامؔ مایوسی ملی
خواہشیں کٹ کر گریں محرومیوں کی دھار سے