دل بھی بضد ہے اور تقاضائے یار بھی
دل بھی بضد ہے اور تقاضائے یار بھی
اک بوجھ ہے انا کا لبادہ اتار بھی
اپنی شکستگی کا مجھے غم نہیں مگر
بکھرے پڑے ہوئے ہیں یہاں وضع دار بھی
وہ قہر ہے کہ دشت و بیاباں پہ بس نہیں
اڑتی ہے خاک اب کے سر کہسار بھی
گھٹ جائے گا شکستہ بدن کے حصار میں
تو اپنے آپ کو کہیں رک کر پکار بھی
خود کو سمیٹنے ہی چلا تھا کہ یہ کھلا
ہے اور انتشار پس انتشار بھی
وہ وقت آ پڑا کہ سبھی دم بخود رہے
کام آ سکا نہ اپنے لہو کا حصار بھی
کس دھند میں الجھنے لگا ہوں میں آج شام
بے منظری کی خاک ہے آنکھوں کے پار بھی