جو سامنے ہے مرے وہ غبار کیا ہوگا

جو سامنے ہے مرے وہ غبار کیا ہوگا
اب اس سے بڑھ کے مرا انتشار کیا ہوگا


تمام ذرے بکھر کر سمیٹ لیں گے مجھے
یہ جانتا ہوں سر کہسار کیا ہوگا


ہر ایک عہد میں ٹوٹا ہوں پھر بھی جانتا ہوں
شکستہ لوگوں میں میرا شمار کیا ہوگا


ہر ایک شخص جہاں اپنے آپ میں گم ہو
وہاں ہم اہل ہنر کا شمار کیا ہوگا


یہ اور بات کہ میں صحن انتظار میں ہوں
مگر جو ہو چکا وہ بار بار کیا ہوگا


تمام جستجوئے شوق رائیگاں اے شامؔ
مجھے خبر ہے پس انتظار کیا ہوگا