ہر گوشے میں بکھرے ہوئے سناٹوں کے ڈر سے
ہر گوشے میں بکھرے ہوئے سناٹوں کے ڈر سے
ویرانیاں گھبرا کے نکل آئی ہیں گھر سے
اس درجہ تھکے ماندے نظر آتے ہیں چہرے
لوٹا ہو کوئی جیسے بہت لمبے سفر سے
جس سمت گھنی چھاؤں کے خیمے سے تنے ہیں
گزرا ہے کڑی دھوپ کا لشکر بھی ادھر سے
اکثر ہوا ایسا کہ بھرے گھر میں سر شام
تنہائی کے آسیب در و بام سے برسے
ہر گام پہ بکھرے ہیں جہاں خار تعلق
گزرا ہوں کئی بار اسی راہ گزر سے