ردائے خاک طلب دور تک بچھا بھی دے

ردائے خاک طلب دور تک بچھا بھی دے
برہنہ راہ کو پیراہن صدا بھی دے


میں ایک سادہ ورق ہوں تری کہانی کا
جو ہو سکے تو مجھے داستاں بنا بھی دے


ہمارے درمیاں حائل ہے دشمنوں کی طرح
جو ہو سکے تو یہ دیوار خوف ڈھا بھی دے


جنم جنم سے ہم اپنی تلاش میں گم ہیں
ہم اہل درد کو ہم سے کبھی ملا بھی دے


برہنہ پیڑ کو شادابیوں سے کر گلزار
گل حیات کو کچھ رنگ پھر نیا بھی دے


ترے خیال کا جب صحن دل میں چاند کھلے
اداس شام کو منظر سا کچھ نیا بھی دے