Shaista Mufti

شائستہ مفتی

شائستہ مفتی کی نظم

    امر لمحہ

    بارشوں کے موسم میں اجنبی سی راہوں میں اس طرح تمہیں ملنا اور پھر بچھڑ جانا یاد پھر دلاتا ہے کہ ابھی گلابوں کی موتیے کے پھولوں کی شوخ تتلیوں جیسی رت ابھی بھی باقی ہے روح کے سفر میں ہم مل چکے ہیں پہلے بھی ماہ و سال کی گردش پاس لے کے آئی تھی اور پھر یہی گردش دور لے گئی ہم کو زندگی کے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    وہ سمندر کے پار رہتا ہے اور دل بے قرار رہتا ہے اس کی باتیں جو یاد آتی ہیں دن ڈھلے تک ہمیں ستاتی ہیں رات بھر اک خمار رہتا ہے وہ سمندر کے پار رہتا پے شہر ماتم کناں ہے تیرے بغیر دشت بھی بے اماں ہے تیرے بغیر ہر شجر سوگوار رہتا ہے وہ سمندر کے پار رہتا ہے دوستی بن گئی سزا جیسے اور ہو آپ ...

    مزید پڑھیے

    منوں ریت تلے

    میں جو سوئی ہوں منوں ریت تلے کاش تو جان سکے شام ڈھلے میری آنکھیں تری آہٹ پہ لگی رہتی ہیں میرا آنچل میری ترسی ہوئی بے کل ہستی میری ممتا تری راہوں میں بچھی رہتی ہے میں بہت خوش ہوں تجھے دیکھ کے اے دل کے قرار تیرے چہرے کی چمک آج بھی تابندہ ہے تیرے لہجے میں مرا عکس ابھی زندہ ہے میں جو ...

    مزید پڑھیے

    سکھی

    آج آؤ سکھی بتاؤں تجھے ان کہی بات ہے سناؤں تجھے کیسے ٹوٹا ملن کا خواب مرا دشت میں رہ گیا سراب مرا تم ملی ہو تو آج سوچتی ہوں پردۂ راز کو اٹھا ہی دوں آج آؤ سکھی بتا ہی دوں دل دھڑکتا ہے اور یہ جنبش بھی ایک ناکام آرزو لے کر شام وعدہ کی جستجو لے کر یوں ہی دم بھر کو مسکراتا ہے اور پھر ڈوب ...

    مزید پڑھیے

    شریک غم

    بہت مغرور ہو تم بھی محبت کو سمجھتے ہو کہ جیسے دھول پاؤں کی کہ جیسے خاک راہوں کی مگر جاناں ذرا سوچو رکو لمحے کو اور دیکھو کہیں ایسا نہ ہو جائے تمہارا دل بدل جائے ستائے یاد چاہت کی یہ آنسو روگ بن جائیں تمہیں اور ہم کو تڑپائیں ذرا ٹھہرو مری سن لو کہ میں تم کو سمجھتی ہوں ذرا تم سے ...

    مزید پڑھیے

    ریت کا مسافر

    ریت کا مسافر تھا رات کی حویلی میں صرف رات بھر ٹھہرا جوگ لے لیا اس نے ریت کی ہتھیلی سے پھول ریت کے چن کر خواب کی سہیلی سے روگ لے لیا اس نے صرف ایک لمحے کی مختصر کہانی کو ریت کے مسافر نے یوں امر بنا ڈالا کاسۂ محبت میں لے کے بھیک لفظوں کی آرزو کی آنکھوں میں اشک تر بنا ڈالا کون اب تجھے ...

    مزید پڑھیے

    تھکے ماندے پرندے

    پرندے اڑ رہے ہیں دور افق بوجھل فضاؤں میں تھکے ماندے پروں میں آگہی کی شورشیں لے کر پناہیں ڈھونڈتے ہیں قرمزی کرنوں کے دامن میں کوئی جائے پناہ ہو کنج ہو کلیوں کا آنگن ہو کوئی صحرا ہو نخلستان ہو بے آب دریا ہو تھکے ماندے پرندے اڑ رہے ہیں شام سر پر ہے فقط اک رات کا ٹھہراؤ اک احساس کی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے یزداں سے اک سوال مرا

    اپنے یزداں سے پوچھنا ہے مجھے ایسے خوابوں میں روشنی کیوں ہے جن کی تعبیر دسترس میں نہیں ان امنگوں کی کیا حقیقت ہے جن کا انجام میرے بس میں نہیں کیوں مرے راستے الجھتے ہیں ان گھنے جنگلوں کی سرحد سے جن میں وحشت کے دیپ جلتے ہیں زندگی کے عمیق راز نہاں سر بہ سر ساتھ ساتھ چلتے ہیں اپنے ...

    مزید پڑھیے

    رخت سفر

    خالی کمرے میں مرا رخت سفر رکھا ہے چند ارمان ہیں پوشیدہ نہاں خانے میں کرچیاں خواب کی رکھی ہیں حفاظت سے کہیں اور کچھ پھول چھپا رکھے ہیں انجانے میں ڈھونڈھتی پھرتی رہی روح کسی ساتھی کو در بدر ٹھوکریں کھاتا رہا پندار مرا اپنی مٹی سے بھی اٹھی نہیں سوندھی خوشبو غیر کے دیس میں لٹتا رہا ...

    مزید پڑھیے

    روپ نگر کی شہزادی

    خواب اک خواب میں جو دیکھا ہے ہے تخیل کہانیوں جیسا قصۂ حسن و عشق کی تمثیل کاکل شب جوانیوں جیسا گزرے وقتوں کی اک کویتا ہو خالی محلوں میں ڈھونڈھتی ہو کسے لے کے ہاتھوں میں پیار کی زنجیر خالی نظروں سے پوچھتی ہو کسے نیند میں سوچتی ہوئی آنکھیں جاگتے میں رہیں جو سوئی سی جانے کس سمت چل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3