سکھی

آج آؤ سکھی بتاؤں تجھے
ان کہی بات ہے سناؤں تجھے


کیسے ٹوٹا ملن کا خواب مرا
دشت میں رہ گیا سراب مرا
تم ملی ہو تو آج سوچتی ہوں
پردۂ راز کو اٹھا ہی دوں
آج آؤ سکھی بتا ہی دوں


دل دھڑکتا ہے اور یہ جنبش بھی
ایک ناکام آرزو لے کر
شام وعدہ کی جستجو لے کر
یوں ہی دم بھر کو مسکراتا ہے
اور پھر ڈوب ڈوب جاتا ہے


آج آؤ سکھی بتاؤں تجھے
ان کہی بات ہے سناؤں تجھے


آرزو دل میں یوں مچلتی ہے
جیسے بے کل ہوا کا گیت کوئی
سر کی سنگت میں من کا میت کوئی
دل دھڑکتا ہے یہ کسی کے لئے
اور مچلتا ہے سر خوشی کے لئے
ایک خوشبو خرام چلتی ہے
اور ساقی بہ نام چلتی ہے
باندھ کر شام میرے پلو سے
رات کرتی ہے گفتگو مجھ سے


آج آؤ سکھی بتاؤں تجھے
ان کہی بات ہے سناؤں تجھے