Shaista Mufti

شائستہ مفتی

شائستہ مفتی کی نظم

    شہر آشوب

    اے مرے دیس میں بستے ہوئے اچھے لوگو خود ہی سوچو کہ سزا جیسی یہ تنہائی ہے جس جگہ پھول مہکتے تھے وفاؤں کے کبھی ان فضاؤں میں اٹل رات کی گہرائی ہے ان اندھیروں سے پرے آج بھی اس دنیا میں لوگ خوش حال محبت سے رہا کرتے ہیں آج بھی شام ڈھلے سکھ کی حسیں وادی میں لوگ پیڑوں کے تلے روز ملا کرتے ...

    مزید پڑھیے

    دیوار گریہ

    ایک دیوار جو حائل ہے مری سوچوں میں کتنے پیچیدہ سوالوں سے مجھے روکتی ہے جب بھی میں رخت سفر باندھتی ہوں شانے پر اپنی جادو بھری ہستی سے مجھے ٹوکتی ہے یہ جو دیوار کہ رہتی ہے سیہ خانوں میں دن ڈھلے اپنے طلسمات کو دکھلاتی ہے مجھ کو محصور کیے رکھتی ہے انگاروں میں چار جانب رخ انوار سے ...

    مزید پڑھیے

    وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو

    وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو ہوا ہے جو کچھ اسے بھلا دو میں ان سے کہہ دوں کہ اب یہ ممکن نہیں رہا ہے وہ رنج ہستی کہ زہر بن کر مرے لہو میں سما چکا ہے مرے تصور میں بس چکا ہے وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو ہوا ہے جو کچھ اسے بھلا دو میں رات دن کی ادھڑپن میں وہ کرچیاں بھی سمیٹ لوں گی جو میری ...

    مزید پڑھیے

    آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

    آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی جانے کس دہر سے آیا ہے یہ طوفان بلا یہ جو طوفان کہ اس میں ہیں کھنڈر خوابوں کے ٹوٹتے خواب ہیں دھندلی سی گزر گاہوں کے ان کہی کوئی کہانی کوئی جلتا آنسو آ کے دامن پہ ٹھہرتا ہوا بے کل شکوہ چپ سی سادھی ہے مرے بت نے مگر آنکھوں میں میرے ہر تاج محل کی ہے ...

    مزید پڑھیے

    نغمۂ جاں

    پھر کوئی نغمۂ جاں چھیڑ کہ شب باقی ہے ان سنا گیت کوئی رقص گہہ انجم میں الجھے الجھے ہوئے بالوں سے الجھتا ہوا گیت مہکی مہکی ہوئی سانسوں میں سلگتا ہوا گیت پھر سجایا ہے ہتھیلی پہ ترے نام کا دیپ اور ہواؤں سے الجھتے ہیں سنبھل جاتے ہیں سلسلے خواب کے بد مست ہوا کے ساتھی دل میں اک جوت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3