امر لمحہ

بارشوں کے موسم میں
اجنبی سی راہوں میں
اس طرح تمہیں ملنا
اور پھر بچھڑ جانا
یاد پھر دلاتا ہے
کہ ابھی گلابوں کی
موتیے کے پھولوں کی
شوخ تتلیوں جیسی رت ابھی بھی باقی ہے
روح کے سفر میں ہم
مل چکے ہیں پہلے بھی
ماہ و سال کی گردش پاس لے کے آئی تھی
اور پھر یہی گردش دور لے گئی ہم کو
زندگی کے سرکس میں کون کب ملے ہم سے
کون دور جاتا ہے
بس یہی وہ لمحہ تھا
جو امر تھا پہلے بھی
اور اب بھی ہے شاید