نظم
وہ سمندر کے پار رہتا ہے
اور دل بے قرار رہتا ہے
اس کی باتیں جو یاد آتی ہیں
دن ڈھلے تک ہمیں ستاتی ہیں
رات بھر اک خمار رہتا ہے
وہ سمندر کے پار رہتا پے
شہر ماتم کناں ہے تیرے بغیر
دشت بھی بے اماں ہے تیرے بغیر
ہر شجر سوگوار رہتا ہے
وہ سمندر کے پار رہتا ہے
دوستی بن گئی سزا جیسے
اور ہو آپ کی عطا جیسے
ہر کرم کا شمار رہتا ہے
وہ سمندر کے پار رہتا ہے
راستہ اک طویل حسرت تھی
تیرے آنے کی دل میں چاہت تھی
منزلوں کا غبار رہتا ہے
وہ سمندر کے پار رہتا ہے