روپ نگر کی شہزادی

خواب اک خواب میں جو دیکھا ہے
ہے تخیل کہانیوں جیسا
قصۂ حسن و عشق کی تمثیل
کاکل شب جوانیوں جیسا


گزرے وقتوں کی اک کویتا ہو
خالی محلوں میں ڈھونڈھتی ہو کسے
لے کے ہاتھوں میں پیار کی زنجیر
خالی نظروں سے پوچھتی ہو کسے


نیند میں سوچتی ہوئی آنکھیں
جاگتے میں رہیں جو سوئی سی
جانے کس سمت چل پڑے ہیں قدم
بھولی بسری ادا وہ کھوئی سی


جانے کیوں سکھ نہ مل سکا تجھ کو
خالی جھولی رہی وفاؤں کی
دل برباد جھیلتا ہی رہا
رت نہ بدلی کبھی جفاؤں کی


لوگ کہتے ہیں حسن کی تصویر
ایسی تصویر جو ادھوری تھی
فاصلہ رہ گیا جو تھا دل میں
ہاتھ بھر کی فقط یہ دوری تھی


وقت کے آسمان پر جانم
تارے انگار سے چمکتے ہیں
یاد رکھتا ہے ان کو ایک جہاں
دامن عشق پر جو جلتے ہیں