Shahzad Anjum Burhani

شہزاد انجم برہانی

شہزاد انجم برہانی کی غزل

    کیا ہمارے شوق بھی وہ کج ادا لے جائے گا

    کیا ہمارے شوق بھی وہ کج ادا لے جائے گا ہم بھی جائیں گے جہاں اب راستہ لے جائے گا یوں ہوا کہ سب عقائد رد کر بیٹھا ہوں میں دیکھنا ہے اب کہاں شوق خدا لے جائے گا بوسہ لے کر میرے ماتھے کا کسی نے یہ کہا تو جہاں بھی جائے گا میرے حوالے جائے گا تیری نادانی یہ تیرا زعم ہے تو یاد رکھ ایک ہی ...

    مزید پڑھیے

    سانس کی آنچ میں ہر لمحہ جھلستے ہوئے لوگ

    سانس کی آنچ میں ہر لمحہ جھلستے ہوئے لوگ خواب کے نام پہ جینے کو نکلتے ہوئے لوگ اگلے وقتوں میں جو جینے کا سبب ہوتے تھے ہو گئے خواب وہ سینوں میں دھڑکتے ہوئے لوگ اعتبار اتنا بھی اس عہد کے لوگوں پہ نہ کر یہ ہیں موسم کی طرح روز بدلتے ہوئے لوگ خوب صورت تو ہے دنیا مگر آفت یہ ہے خاک ہو ...

    مزید پڑھیے

    سوال روشنی کا تھا جواب لکھ رہے تھے ہم

    سوال روشنی کا تھا جواب لکھ رہے تھے ہم پروں پہ جگنوؤں کے آفتاب لکھ رہے تھے ہم جو خشک لب کو تر نہ کر سکے تو رات یہ ہوا سمندروں کو خواب میں سراب لکھ رہے تھے ہم تمام سر بلندیاں تھیں سر نگوں کھڑی ہوئیں شکستگیٔ ذات پر کتاب لکھ رہے تھے ہم تو مرحبا کی اک صدا حرم کی سمت سے اٹھی قصیدۂ جناب ...

    مزید پڑھیے

    بہت گھٹن ہے یہاں پر کوئی بچا لے مجھے

    بہت گھٹن ہے یہاں پر کوئی بچا لے مجھے میں اپنی ذات میں مدفون ہوں نکالے مجھے ہم آدمی ہیں بہکنا ہماری فطرت ہے بہک رہا ہوں اگر میں کوئی سنبھالے مجھے کہ حرف حق تو ادا ہو گیا ہے ہونٹوں سے زمانہ چاہے تو نیزے پہ اب اچھالے مجھے خدا کرے کہ میسر ترا وصال نہ ہو بہت عزیز ہیں یہ ہجر کے اجالے ...

    مزید پڑھیے

    سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے

    سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے سورجوں کی وراثت ملی تھی ہمیں در بدر ہو گئے روشنی کے لیے کوئی آواز ہے وہ کوئی ساز ہے اس سے ہی رنگ و نکہت کا در باز ہے جس طرف ہو نظر وہ رہے جلوہ گر کیسے سوچیں گے ہم پھر کسی کے لیے بد دماغی مری ہے وہی جو کہ تھی طرز خود بیں تمہارا ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری یاد کی تلخی ابھی بچی ہوئی ہے

    تمہاری یاد کی تلخی ابھی بچی ہوئی ہے سو اک شراب کی بوتل نئی رکھی ہوئی ہے نہ آستین میں خنجر نہ لب پہ شیرینی یہ کیسے عقل کے دشمن سے دوستی ہوئی ہے وہ پھول کس کے شبستاں میں کھل رہا ہوگا جو میرے کمرے میں خوشبو بھری بھری ہوئی ہے ابھی سے فلسفۂ ریگ زار کی باتیں ابھی تو عشق کے مکتب میں ...

    مزید پڑھیے

    بھرنے لگتا ہے کوئی زخم تو جب پوچھتے ہیں

    بھرنے لگتا ہے کوئی زخم تو جب پوچھتے ہیں لوگ یوں تجھ سے بچھڑنے کا سبب پوچھتے ہیں کیا تمسخر ہے بلندی بھی کہ اب حال اپنا پہلے جن لوگوں نے پوچھا نہیں اب پوچھتے ہیں اپنا پیکر نہیں پہچان بدل کر آؤ یہ وہ محفل ہے جہاں نام و نسب پوچھتے ہیں حسن والوں کی ادا ہے کہ جفا ہے کیا ہے ہجر زادوں ...

    مزید پڑھیے

    مر جانے کی اس دل میں تمنا بھی نہیں ہے

    مر جانے کی اس دل میں تمنا بھی نہیں ہے اندر سے کوئی کہتا ہے جینا بھی نہیں ہے گل ہو گئیں شمعیں ذرا تم جاؤ ہواؤ شاخوں پہ کوئی ٹوٹنے والا بھی نہیں ہے اے سنگ سر راہ ملامت سے گزر جا تیرا بھی نہیں ہے کوئی میرا بھی نہیں ہے احباب کی چاہت پہ شبہ بھی نہیں ہوتا ہم جیسا مگر کوئی اکیلا بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2