Shahzad Anjum Burhani

شہزاد انجم برہانی

شہزاد انجم برہانی کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    اس چاند کو ہم نے ترا چہرہ نہیں لکھا

    اس چاند کو ہم نے ترا چہرہ نہیں لکھا دنیا کی کسی چیز کو تجھ سا نہیں لکھا زلفوں کو تری رات سے تشبیہ نہیں دی آنکھوں کو کبھی ساغر و مینا نہیں لکھا دل کو نہ دکھایا کسی صحرا سے مماثل اشکوں کی روانی کو بھی دریا نہیں لکھا کس بات پہ برہم ہو زمانے کے خداؤ ہم نے کبھی اپنا بھی قصیدہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اپنے پرکھوں کی روایات سے ہٹتا ہوا میں

    اپنے پرکھوں کی روایات سے ہٹتا ہوا میں زندگی تیرے سبھی رنگوں سے کٹتا ہوا میں حد ادراک سے آگے ہے رسائی لیکن اپنے اندر کسی مرکز پہ سمٹتا ہوا میں ہے محبت خس و خاشاک ملاقات کا نام آگ بن کے کسی پیکر سے لپٹتا ہوا میں کیسے لا یعنی ارادوں کی چبھن ہے مجھ میں کیسی آوازوں پہ ہر لمحہ پلٹتا ...

    مزید پڑھیے

    رات کے وقت کوئی گیت سناتی ہے ہوا

    رات کے وقت کوئی گیت سناتی ہے ہوا شاخ در شاخ بھلا کس کو بلاتی ہے ہوا سرد رات اپنی نہیں کٹتی کبھی تیرے بغیر ایسے موسم میں تو اور آگ لگاتی ہے ہوا ایک مانوس سی خوشبو سے مہکتی ہے فضا جب تو آتا ہے بہت شور مچاتی ہے ہوا کن گزر گاہوں کے ہیں گرد و غبار آنکھوں میں روز پت جھڑ کے ہمیں خواب ...

    مزید پڑھیے

    کون تھا جو گونگے لفظوں کو معانی دے گیا

    کون تھا جو گونگے لفظوں کو معانی دے گیا برف کی جھیلوں کو انداز روانی دے گیا ایک جھونکا تھا مرے دل کے خراب آباد میں ننگی دیواروں کو تصویریں پرانی دے گیا داستانوں کا کوئی کردار ہے یہ زندگی جو بھی آیا وہ ہمیں تازہ کہانی دے گیا میں انا کے گنبد دل کش میں ٹھہرا بھی نہ تھا کوئی چپکے سے ...

    مزید پڑھیے

    سلگتی نیند کے گرداب سے نکل آیا

    سلگتی نیند کے گرداب سے نکل آیا میں آج یعنی کسی خواب سے نکل آیا وہاں بھی کوئی نہیں تھا خراب حالوں کا میں ہو کے منبر و محراب سے نکل آیا عطائے شان کریمی عجیب ہوتی ہے کنارا خود ہی تہہ آب سے نکل آیا ہزار صدیوں پہ بھاری تھا ایک لمحۂ لمس وہ رات جب حد آداب سے نکل آیا وہ دیکھ موت کے ساحل ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    نیا جنم

    اداسی کے آنگن میں محرومیوں کے گلابوں کی خوشبو مری سانس کے راستوں سے گزر کر گرم لاوے کی صورت رگوں میں بہی جا رہی ہے مجھے گھر کی دیوار و در میں امیدوں کی پرچھائیوں کا وہ نوحہ نظر آ رہا ہے جو صوت و صدا کی مقید فضا سے نکل کر مجسم ہوا جا رہا ہے رات کی سب سیاہی مری آنکھ سے مرے جسم و جاں ...

    مزید پڑھیے

    سوال

    ایک پتھر پہ بیٹھے ہوئے جھیل میں پاؤں ڈالے میں یہ سوچتا ہوں شب و روز کا یہ تماشا بھی کیوں ہے آسماں کی بلندی جو اک ان چھوا راز ہے وہ کیا ہے میرے وجدان نے روح کی بے قراری کو تسکین دینے کی خاطر بنایا خدا ہے خدا ہے زمیں ہے زماں ہے شب و روز ہیں چاند سورج ستارے آسماں کی بلندی جو اک ان ...

    مزید پڑھیے