Shahzad Anjum Burhani

شہزاد انجم برہانی

شہزاد انجم برہانی کی غزل

    اس چاند کو ہم نے ترا چہرہ نہیں لکھا

    اس چاند کو ہم نے ترا چہرہ نہیں لکھا دنیا کی کسی چیز کو تجھ سا نہیں لکھا زلفوں کو تری رات سے تشبیہ نہیں دی آنکھوں کو کبھی ساغر و مینا نہیں لکھا دل کو نہ دکھایا کسی صحرا سے مماثل اشکوں کی روانی کو بھی دریا نہیں لکھا کس بات پہ برہم ہو زمانے کے خداؤ ہم نے کبھی اپنا بھی قصیدہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اپنے پرکھوں کی روایات سے ہٹتا ہوا میں

    اپنے پرکھوں کی روایات سے ہٹتا ہوا میں زندگی تیرے سبھی رنگوں سے کٹتا ہوا میں حد ادراک سے آگے ہے رسائی لیکن اپنے اندر کسی مرکز پہ سمٹتا ہوا میں ہے محبت خس و خاشاک ملاقات کا نام آگ بن کے کسی پیکر سے لپٹتا ہوا میں کیسے لا یعنی ارادوں کی چبھن ہے مجھ میں کیسی آوازوں پہ ہر لمحہ پلٹتا ...

    مزید پڑھیے

    رات کے وقت کوئی گیت سناتی ہے ہوا

    رات کے وقت کوئی گیت سناتی ہے ہوا شاخ در شاخ بھلا کس کو بلاتی ہے ہوا سرد رات اپنی نہیں کٹتی کبھی تیرے بغیر ایسے موسم میں تو اور آگ لگاتی ہے ہوا ایک مانوس سی خوشبو سے مہکتی ہے فضا جب تو آتا ہے بہت شور مچاتی ہے ہوا کن گزر گاہوں کے ہیں گرد و غبار آنکھوں میں روز پت جھڑ کے ہمیں خواب ...

    مزید پڑھیے

    کون تھا جو گونگے لفظوں کو معانی دے گیا

    کون تھا جو گونگے لفظوں کو معانی دے گیا برف کی جھیلوں کو انداز روانی دے گیا ایک جھونکا تھا مرے دل کے خراب آباد میں ننگی دیواروں کو تصویریں پرانی دے گیا داستانوں کا کوئی کردار ہے یہ زندگی جو بھی آیا وہ ہمیں تازہ کہانی دے گیا میں انا کے گنبد دل کش میں ٹھہرا بھی نہ تھا کوئی چپکے سے ...

    مزید پڑھیے

    سلگتی نیند کے گرداب سے نکل آیا

    سلگتی نیند کے گرداب سے نکل آیا میں آج یعنی کسی خواب سے نکل آیا وہاں بھی کوئی نہیں تھا خراب حالوں کا میں ہو کے منبر و محراب سے نکل آیا عطائے شان کریمی عجیب ہوتی ہے کنارا خود ہی تہہ آب سے نکل آیا ہزار صدیوں پہ بھاری تھا ایک لمحۂ لمس وہ رات جب حد آداب سے نکل آیا وہ دیکھ موت کے ساحل ...

    مزید پڑھیے

    یہاں پہ جو ہے وہ مذہب شکار ہے ہاں ہے

    یہاں پہ جو ہے وہ مذہب شکار ہے ہاں ہے خدا دلوں پہ دماغوں پہ بار ہے ہاں ہے تمام مفتی و واعظ خدا کو بیچتے ہیں تو کیا خدا بھی کوئی کاروبار ہے ہاں ہے ہر ایک چیز میں تم عیب دیکھتے ہو نہیں تمہارا لہجہ شکایت گزار ہے ہاں ہے سبھی کو خبط خود آرائی و نمائش ہے سبھی کے ذہن پہ عورت سوار ہے ہاں ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھ میری کہانی کہاں سے نکلی ہے

    نہ پوچھ میری کہانی کہاں سے نکلی ہے یہ داستاں بھی تری داستاں سے نکلی ہے جگر کو چیر لیا شوق میں چٹانوں نے صدائے عشق جب آب رواں سے نکلی ہے سبھی پہ خوف مسلط تھا ناخداؤں کا جو بات حق تھی ہماری زباں سے نکلی ہے چھوا ہے تجھ کو تو میرا سلگ اٹھا ہے بدن یہ کیسی آنچ ترے جسم و جاں سے نکلی ...

    مزید پڑھیے

    دنیا اپنی موت جلد از جلد مر جانے کو ہے

    دنیا اپنی موت جلد از جلد مر جانے کو ہے اب یہ ڈھانچہ ایسا لگتا ہے بکھر جانے کو ہے عین اس دم نیشتر لے آتی ہیں یادیں تری زخم تنہائی کا لگتا ہے کہ بھر جانے کو ہے جانے والے اور کچھ دن سوگ کرنا ہے ترا ذہن و دل سے پھر یہ نشہ بھی اتر جانے کو ہے وقت رخصت بد گمانی تیری ایسا گھاؤ تھی رفتہ ...

    مزید پڑھیے

    سچ کی آواز کا سولی پہ بھی رد ہے حد ہے

    سچ کی آواز کا سولی پہ بھی رد ہے حد ہے تم اگر جھوٹ بھی بولو تو سند ہے حد ہے تم تو سورج تھے پہ حیرت ہے مجھے وقت زوال اک دیے سے تمہیں اس درجہ حسد ہے حد ہے میں کہ مسجود ملائک تھا کبھی داور حشر میرے اعمال پر ان سے ہی مدد ہے حد ہے ہم تو بربادی کا سامان کئے بیٹھے تھے مسلک عشق و وفا میں ...

    مزید پڑھیے

    سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لیے

    سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لیے سورجوں کی وراثت ملی تھی ہمیں در بدر ہو گئے روشنی کے لیے کوئی آواز ہے وہ کوئی ساز ہے اس سے ہی رنگ و نکہت کا در باز ہے جس طرف ہو نظر وہ رہے جلوہ گر کیسے سوچیں گے ہم پھر کسی کے لیے بد دماغی مری ہے وہی جو کہ تھی طرز خود بیں تمہارا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2