سوال روشنی کا تھا جواب لکھ رہے تھے ہم

سوال روشنی کا تھا جواب لکھ رہے تھے ہم
پروں پہ جگنوؤں کے آفتاب لکھ رہے تھے ہم


جو خشک لب کو تر نہ کر سکے تو رات یہ ہوا
سمندروں کو خواب میں سراب لکھ رہے تھے ہم


تمام سر بلندیاں تھیں سر نگوں کھڑی ہوئیں
شکستگیٔ ذات پر کتاب لکھ رہے تھے ہم


تو مرحبا کی اک صدا حرم کی سمت سے اٹھی
قصیدۂ جناب بو تراب لکھ رہے تھے ہم


ورق سے دفعتاً ہی آنسوؤں کی اک مہک اٹھی
بہ نام میرؔ آج انتساب لکھ رہے تھے ہم