بھرنے لگتا ہے کوئی زخم تو جب پوچھتے ہیں
بھرنے لگتا ہے کوئی زخم تو جب پوچھتے ہیں
لوگ یوں تجھ سے بچھڑنے کا سبب پوچھتے ہیں
کیا تمسخر ہے بلندی بھی کہ اب حال اپنا
پہلے جن لوگوں نے پوچھا نہیں اب پوچھتے ہیں
اپنا پیکر نہیں پہچان بدل کر آؤ
یہ وہ محفل ہے جہاں نام و نسب پوچھتے ہیں
حسن والوں کی ادا ہے کہ جفا ہے کیا ہے
ہجر زادوں سے یہ افسانۂ شب پوچھتے ہیں
عرضی انصاف کی ہم نے بھی لگا رکھی ہے
دیکھیے ظل الٰہی ہمیں کب پوچھتے ہیں
قدر دانوں کی کمی ہے مگر انجمؔ صاحب
تم نہیں ہوتے ہو محفل میں تو سب پوچھتے ہیں