Shahzad Anjum Burhani

شہزاد انجم برہانی

شہزاد انجم برہانی کی نظم

    نیا جنم

    اداسی کے آنگن میں محرومیوں کے گلابوں کی خوشبو مری سانس کے راستوں سے گزر کر گرم لاوے کی صورت رگوں میں بہی جا رہی ہے مجھے گھر کی دیوار و در میں امیدوں کی پرچھائیوں کا وہ نوحہ نظر آ رہا ہے جو صوت و صدا کی مقید فضا سے نکل کر مجسم ہوا جا رہا ہے رات کی سب سیاہی مری آنکھ سے مرے جسم و جاں ...

    مزید پڑھیے

    سوال

    ایک پتھر پہ بیٹھے ہوئے جھیل میں پاؤں ڈالے میں یہ سوچتا ہوں شب و روز کا یہ تماشا بھی کیوں ہے آسماں کی بلندی جو اک ان چھوا راز ہے وہ کیا ہے میرے وجدان نے روح کی بے قراری کو تسکین دینے کی خاطر بنایا خدا ہے خدا ہے زمیں ہے زماں ہے شب و روز ہیں چاند سورج ستارے آسماں کی بلندی جو اک ان ...

    مزید پڑھیے