تمہاری یاد کی تلخی ابھی بچی ہوئی ہے
تمہاری یاد کی تلخی ابھی بچی ہوئی ہے
سو اک شراب کی بوتل نئی رکھی ہوئی ہے
نہ آستین میں خنجر نہ لب پہ شیرینی
یہ کیسے عقل کے دشمن سے دوستی ہوئی ہے
وہ پھول کس کے شبستاں میں کھل رہا ہوگا
جو میرے کمرے میں خوشبو بھری بھری ہوئی ہے
ابھی سے فلسفۂ ریگ زار کی باتیں
ابھی تو عشق کے مکتب میں حاضری ہوئی ہے
وہ ایک شخص جو دہلیز تک نہیں آتا
اسی کے نام کی شہرت گلی گلی ہوئی ہے