سانس کی آنچ میں ہر لمحہ جھلستے ہوئے لوگ
سانس کی آنچ میں ہر لمحہ جھلستے ہوئے لوگ
خواب کے نام پہ جینے کو نکلتے ہوئے لوگ
اگلے وقتوں میں جو جینے کا سبب ہوتے تھے
ہو گئے خواب وہ سینوں میں دھڑکتے ہوئے لوگ
اعتبار اتنا بھی اس عہد کے لوگوں پہ نہ کر
یہ ہیں موسم کی طرح روز بدلتے ہوئے لوگ
خوب صورت تو ہے دنیا مگر آفت یہ ہے
خاک ہو جائیں گے یہ ہنستے چہکتے ہوئے لوگ
ماجرا خیز کل اک خواب تھا دیکھا ہم نے
بیچ دریا میں تھے کشتی سے اترتے ہوئے لوگ
زندگی نام ہے شاید کہ اسی کا انجمؔ
ہر قدم گرتے ہوئے اور سنبھلتے ہوئے لوگ